جنازے سے فراغت اور مٹی دینے کے بعد کھانے کا انتظام ہے، کھانا کھاکر جائیں؟

جنازے سے فراغت اور مٹی دینے کے بعد کھانے کا انتظام ہے، کھانا کھاکر جائیں؟

شرعئ حکم.png
شرعی مسائل

علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کا جائزہ لیتے رہیں اور اگر کہیں کچھ غلط ہورہا ہو تو اس کے روک تھام کی کوشش کریں۔ شروع میں کچھ چيزیں شروع ہوتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ وہ سماجی زندگی کا لازمہ بنتی چلی جاتی ہیں ۔ادھر چند سالوں سے یہ رواج دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب کسی کی موت ہوتی ہے تو جنازے کے بعد اہل خانہ یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ کھانے کا انتظام ہے، کھانا کھاکر جائیں۔یہ غیر شرعی رویہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے ۔ اس کے مفاسد بہت ہیں۔ علما کو چاہیے کہ عوام کو میت اور جنازے کے احکام بتائیں اور غیر شرعی اعمال و حرکات سے روکیں۔

جب کسی گھر میں میت ہوجائے تو میت کی وجہ سے لازما گھر والے تکلیف میں ہوں گے۔ ایسے میں حکم یہ ہے کہ ان گھر والوں کو کھانا دیا جائے اور ما شاءاللہ مسلم سماج اس پر عمل کرتا رہا ہے۔ لیکن جیسے جیسے کمیونیکیشن کے ذرائع بڑھتے جاتے ہیں ، موت کی اطلاع تیزی سے لوگوں تک پہنچ رہی ہے اور جنازے میں شرکت کا دائرہ بھی بڑھ رہا ہے اسی تیزی کے ساتھ یہ بڑی خرابی بھی در آئی ہے کہ لوگ جنازے کے بعد باضابطہ کھانا کھاکر واپس جاتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ موت نہیں ہوئی، شادی ہورہی ہے ۔

اس بڑھتے ہوئے رواج کی بہت سی خرابیاں ہیں ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک غیر شرعی عمل ہے ۔ اسلام میں میت کے گھروالوں کو کھانا دینا ہے، ان کا کھانا نہیں کھانا ہے ۔ یہاں پر یہ بالکل الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک بڑا بوجھ ڈالنے والی حرکت ہے یہ۔ جب میت ہوتی ہے تو عام طور سے قریبی رشتہ دار کھانے کا انتظام کرکے میت کے گھر والوں کو دیتے ہیں۔ اب جب سے یہ رواج بڑھ رہا ہے، یہ مستقل ایک درد سر ہوتا ہے کہ جنازے کے فورا بعد والا کھانا کس کی طرف سے دیا جائے گا؟ کبھی کبھی یہ بوجھ ان سروں پر پڑتا ہے جو سر بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا۔میرے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں جب اس ذمہ داری سے سبکدوشی کےلیے لوگوں کو قرض لینے پڑے، بعض صورتوں میں اپنی بے بسی کا اظہار کرکے معذرت کرنی پڑی اور کسی اور سے گزارش کی گئی کہ وہ ذمہ داری ادا کردیں ۔یوں جن کا مقام محفوظ تھا انہیں کھل جانا پڑا۔ کسی شریف انسان پر یہ کتنا گراں گزرتا ہے ، اہل قلب ونظر محسوس کرسکتے ہیں!!

 

 

عام طور سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ دور دراز سے آنے والے لوگ آخر کہاں جاکر کھانا کھائیں گے ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ زبردستی کے چونچلے ہيں ۔ آج آنے جانے کے وسائل بڑھ گئے ہیں ، کھانے پینے کے وسائل بڑھ گئے ہیں ، بالعموم جنازے کا اعلان پہلے ہو جاتا ہے تو کیا آدمی اس حساب سے کھاپی کر نہیں نکل سکتا؟دیکھا یہ جاتا ہے کہ باہر سے آنے والے پانچ دس فیصد بھی نہیں ہوتے ، عام طور سےمقامی لوگ شریک دستر خوان رہتے ہیں، ان بے چاروں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ غلط ہے۔ کسی پر بوجھ ڈال کر اس کا کھانا کھانا کہاں کی اخلاقی بلندی ہے؟ جنازے میں شریک ہونے والے اہل میت کے لیے سردرد کا باعث ہوں، یہ کتنی عجیب بات ہے۔ کوئی کھانا تبھی حلال ہوتا ہے جب کھلانے والا دل کی آمادگی کے ساتھ کھلا رہا ہو۔

اس طرح کے عمل کو رواج دینا بہت افسوس ناک ہے ۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ جس طرح ہندو سماج میں کسی کی موت اس کے اہل خانہ کے لیے جذباتی تکلیف کے علاوہ مادی خسارے کا باعث ہوتی ہے اسی طرح یہ عمل مسلم سماج کو بھی پریشان کرے گا۔مرنے والے کے مرنے پر اس کے قریبی رشتہ دار سب سے پہلے یہ سوچ کر پریشان ہوں گےکہ اتنے اتنے پیسے کا نظم کرنا پڑے گا۔ دین سے بھاگنے اور زبردستی کی حیثيت دکھانے کا یہ نقصان دن بہ دن بڑھتا جائےگا۔ سوچیے کہ ہم مرنے والے ہوں اور ہمارے اہل خانہ/قریبی رشتہ دار یہ سوچ کر ہلکان ہورہے ہوں کہ یہ مرتے مرتے بھی ہزاروں کا نقصان کرکے جائے گا۔

اس صورت حال کے خلاف زبان کھولنا اور لوگوں کو دین کی صحیح تعلیم سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے۔

👇دلائل نیچے دیکھیں

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *